Add parallel Print Page Options

مردکی کا ایستر سے مدد طلب کرنا

جو کچھ ہو رہا تھا اس کے متعلق مردکی نے سنا۔ جب اس نے یہودیوں کے خلاف بادشاہ کا حکم سنا تو اپنے کپڑے پھا ڑ لئے اس نے سوگ کا لباس پہن لیا اور اپنے سر پر خاک ڈا لی۔ وہ اونچی آواز میں پھوٹ پھوٹ کر چیختے ہوئے شہر میں نکل پڑا۔ لیکن مردکی صرف بادشاہ کے دروازہ تک ہی جا سکا کیوں کہ سوگ کا لباس پہن کر دروازہ کے اندر جانے کی کسی کو بھی اجازت نہ تھی۔ ہر صوبہ میں جہاں کہیں بھی بادشاہ کے یہ احکام پہنچے یہودیوں میں رونا دھو نا اور سوگ شروع ہو گیا۔ وہ لوگ روزہ رکھتے اور چیختے تھے۔ بہت سے یہودیوں نے سوگ کے کپڑے پہن لئے اور اپنے سروں پر خاک ڈا لے زمین پر پڑے تھے۔

ایستر کی خادمہ لڑ کیوں اور خواجہ سراؤں نے ایستر کے پاس جا کر مردکی کے حالات کے متعلق بتا یا۔ اس کی وجہ سے ملکہ ایستر بہت رنجیدہ اور بہت پریشان ہو گئی اس نے مردکی کے پا س سوگ کے لباس کے بجائے دوسرے کپڑے پہننے کو بھیجے لیکن اس نے ان کپڑے کو پہننے سے انکار کیا۔ اسکے بعد ایستر نے ہتاک کو بلایا کہ میرے سامنے آؤ۔ ہتاک بادشاہ کے خواجہ سراؤں میں سے ایک تھا جسے بادشاہ نے اسکی ( ایستر کی) خدمت کے لئے مقرّر کیا تھا۔ ایستر نے اسے یہ پتہ لگا نے کے لئے بھیجا کہ کیا ہو رہا ہے اور مرد کی کو کیا چیز تکلیف دے رہی ہے ؟ ہتاک شہر کے اس کھلے میدان میں گیا جہاں شاہی دروازہ کے آگے اس نے مردکی کو دیکھا۔ وہاں مردکی نے ہتاک سے جو کچھ ہوا تھا سب کہہ ڈا لا۔ اس نے ہتاک کو یہ بھی بتا یا کہ ہامان نے یہودیوں کو مار ڈالنے کے لئے بادشاہ کے خزا نے میں کتنی دولت جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مر دکی نے ہتاک کو یہودیوں کو ہلاک کرنے کے لئے بادشاہ کے حکم پر مشتمل خط کی ایک نقل بھی دی۔ اور شاہی حکم نامہ شہر سوسن میں ہر جگہ بھیجا گیا تھا۔ مرد کی یہ چاہتا تھا کہ ہتاک اس خط کو ایستر کو دکھا ئے اور ہر بات اسکو پوری طرح بتا دے۔ اور اس نے اس سے یہ بھی کہا کہ وہ ایستر کو بادشاہ کے پاس جاکر مرد کی اور اسکے لوگوں کے لئے رحم کی درخواست کر نے کی کو شش کرے۔

ہتاک ایستر کے پاس واپس آیا اور اس نے ایستر سے جو کچھ مرد کی نے کہنے کے لئے کہا تھا سب کچھ کہہ دیا۔

10 پھر ایستر نے ہتاک کے ذریعہ مرد کی کو یہ کہلا بھیجا۔ 11 “مرد کی! بادشاہ کے تمام قائد اور بادشاہ کے تمام صوبوں کے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ قانون ہے کہ کوئی بھی بغیر بلا ئے بادشاہ کے اندرونی دربار میں نہیں جا سکتا ہے۔ قانون سب کے لئے جنس کے بلا لحاظ یکساں نا فذ ہوتا ہے ، چا ہے اسے مانے یا پھر مرے۔ صرف سوائے اسکے کہ ، اگر بادشاہ کے ہاتھ کا سونے کا ڈنڈا اس آدمی کو دے دیا جائے جو اس سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر بادشاہ ایسا کر تا تو اس آدمی کو مارنے سے بچا لیا جا تا ہے۔” اس نے یہ بھی کہا ، “مجھے بادشاہ سے ملنے کے لئے ۳۰ دن سے نہیں بلا یا گیا ہے۔”

12-13 اس کے بعد ایستر کا پیغام مرد کی کے پاس پہنچا دیا گیا۔ اس پیغام کو پاکر مرد کی نے اسے جواب بھیجا : “ایستر ! ایسا مت سوچ کہ تو بادشاہ کے محل میں رہنے کی وجہ سے سارے یہودیوں میں سے تم ہی صرف بچ جاؤ گی۔ 14 اگر اب تم خاموش رہو گی تو یہودیوں کے لئے مدد اور خلاصی تو کسی دوسرے ذرائع سے آہی جائے گی۔ لیکن تم اور تمہارے باپ کے خاندان سب مر جائیں گے۔ اور کون جانتا ہے کہ شاید جن مصیبتوں کو ابھی ہم لوگ جھیل رہے ہیں اسے حل کرنے کے لئے تم ملکہ بنی ہو۔”

15 اس پر ایستر نے مردکی کو یہ جواب بھجوایا : 16 “مردکی ! جاؤ اور جاکر تمام یہودیوں کو شہر سوسن میں جمع کرو اور میرے لئے روزہ رکھو تین دن اور تین رات تک نہ کچھ کھا ؤ اور نہ ہی کچھ پیو۔ تیری طرح میں اور میری خادمائیں بھی روزہ رکھیں گی۔ ہمارے روزہ رکھنے کے بعد میں بادشاہ کے پاس جاؤں گی میں جانتی ہوں کہ اگر بادشاہ مجھے اپنے پاس نہ بلا یا تو اس کے پاس جانا اصول کے خلاف ہے لیکن میں کسی بھی طرح سے بادشاہ سے ملاقات کروں گی۔ اور اگر مجھے مرنا پڑیگا تو مرونگی۔”

17 اس طرح مردکی وہاں سے چلا گیا اور ا یستر نے اس سے جیسا کرنے کو کہا تھا اس نے ویسا ہی کیا۔

Mordecai Persuades Esther to Help

When Mordecai learned of all that had been done, he tore his clothes,(A) put on sackcloth and ashes,(B) and went out into the city, wailing(C) loudly and bitterly. But he went only as far as the king’s gate,(D) because no one clothed in sackcloth was allowed to enter it. In every province to which the edict and order of the king came, there was great mourning among the Jews, with fasting, weeping and wailing. Many lay in sackcloth and ashes.

When Esther’s eunuchs and female attendants came and told her about Mordecai, she was in great distress. She sent clothes for him to put on instead of his sackcloth, but he would not accept them. Then Esther summoned Hathak, one of the king’s eunuchs assigned to attend her, and ordered him to find out what was troubling Mordecai and why.

So Hathak went out to Mordecai in the open square of the city in front of the king’s gate. Mordecai told him everything that had happened to him, including the exact amount of money Haman had promised to pay into the royal treasury for the destruction of the Jews.(E) He also gave him a copy of the text of the edict for their annihilation, which had been published in Susa, to show to Esther and explain it to her, and he told him to instruct her to go into the king’s presence to beg for mercy and plead with him for her people.

Hathak went back and reported to Esther what Mordecai had said. 10 Then she instructed him to say to Mordecai, 11 “All the king’s officials and the people of the royal provinces know that for any man or woman who approaches the king in the inner court without being summoned(F) the king has but one law:(G) that they be put to death unless the king extends the gold scepter(H) to them and spares their lives. But thirty days have passed since I was called to go to the king.”

12 When Esther’s words were reported to Mordecai, 13 he sent back this answer: “Do not think that because you are in the king’s house you alone of all the Jews will escape. 14 For if you remain silent(I) at this time, relief(J) and deliverance(K) for the Jews will arise from another place, but you and your father’s family will perish. And who knows but that you have come to your royal position for such a time as this?”(L)

15 Then Esther sent this reply to Mordecai: 16 “Go, gather together all the Jews who are in Susa, and fast(M) for me. Do not eat or drink for three days, night or day. I and my attendants will fast as you do. When this is done, I will go to the king, even though it is against the law. And if I perish, I perish.”(N)

17 So Mordecai went away and carried out all of Esther’s instructions.