Add parallel Print Page Options

دانیال اور شیر ببر

داراے کے دل میں یہ خیال آیا کہ کتنا اچھا ہو تا اگر ایک سو بیس صوبیدار کا انتخاب ہو تا جو ساری مملکت میں حکومت کر تا۔ اور اس ۱۲۰ صوبیداروں کو کنٹرول کر نے کیلئے بادشا ہ تین لوگوں کو وزیر مقرر کیا۔ ان تینو ں وزیروں میں سے دانیال ایک تھا۔ ان تینوں کو بادشا ہ نے اس لئے مقرر کیا تھا۔ کہ کو ئی اس کے ساتھ دغابازی نہ کرے اور اس کی حکومت کو کو ئی نقصان بھی نہ پہنچے۔ دانیال نے دوسرے وزراء اور صوبیداروں سے بڑھ کر سلوک کیا،اور اپنے اعلیٰ قابلیت کی وجہ سے اپنے آپ کو الگ کیا۔بادشا ہ دانیال سے اتنا زیادہ متاثر کہ اس نے دانیال کو تمام مملکت کا حاکم بنانے کا ارادہ کیا۔ لیکن جب دوسرے وزیروں اور صوبیداروں نے اسکے بارے میں سنا تو وہ لوگ دانیال کو قصوروار ٹھہرانے کے لئے اسباب ڈھونڈ نے لگے کہ دانیال کی حکومت کے کام کے لئے اپنے کام میں کچھ غلطی کر رہا ہے۔ لیکن وہ دانیال میں کو ئی خرابی نہیں ڈھونڈ پا ئے۔اس طرح وہ اس پر کو ئی غلط کام کرنے کا الزام نہ لگا سکے۔دانیال بہت ایماندار اور بھروسہ مند شخص تھا۔

آخر کار ان لوگوں نے کہا، “دانیال پر کو ئی بُرے کام کرنے کا الزام لگانے کی کو ئی وجہ نہیں ڈھونڈ پا ئیں گے۔اس لئے ہمیں شکایت کے لئے کو ئی ایسی بات ڈھونڈ نی چا ہئے جو اس کے خدا کی شریعت سے تعلق رکھتی ہو۔”

اس طرح وہ دونوں صوبیداروں اور وزیر ساتھ مل کر بادشا ہ کے پاس گئے۔انہوں نے کہا: “اے بادشا ہ دارا! آ پ ابد تک قائم رہیں۔ مملکت کے تمام وزیروں اور حاکموں اور صوبیداروں، مشیروں اور دوسرے سرداروں نے باہم مشورہ کیا ہے اور پابندی کا حکم جا ری کر نے کے لئے شاہی فرمان لکھنے کیلئے راضی ہو ئے ہیں۔ جس کے مطابق، اگر کو ئی تمہیں چھو ڑ کر کسی اور خدا یا آدمی کی تیس دن تک عبادت کر تا ہے تو اسے ضرور شیروں کے ماند میں ڈال دیا جا ئے۔ اے بادشا ہ! ایسا قانون بنادو اور دستاویز پر دستخط کر دو،تا کہ وہ بالکل بدلی نہ جا سکے، جیسا کہ مادیوں اور فارسیوں کے قوانین کو نہ تو مٹا ئے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔” اس طرح بادشا ہ دارانے یہ فرمان بنا کر اس پر دستخط کر دیئے۔

10 دانیال ہمیشہ ہی ہر روز تین بار خدا کے حضور دعا کیا کر تا تھا۔ ہر روز تین بار گھٹنے ٹیک کر دعا کر تا اور اس کی شکر گذاری کر تا تھا۔دانیال نے جب اس نئے فرمان کے بارے میں سنا تو وہ اپنا گھر چلا گیا۔ دانیال اپنے مکان کی چھت کے اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دانیال ان کھڑکیوں کے پاس گیا جو یروشلم کی جانب کھُلتی تھیں۔ پھر وہ اپنے گھٹنوں کے بَل جھکا اور جیسا ہمیشہ کیا کر تا تھا اس نے ویسی ہی دعا کی۔

11 پھر وہ لوگ گروہ بنا کر دانیال کے یہاں جا پہنچے۔ وہاں انہو ں نے دانیال کو دعا کر تے اور خدا سے رحم مانگتے پا یا۔ 12 بس پھر کیا تھا، وہ لوگ بادشا ہ کے پاس جا پہنچے اور انہوں نے بادشا ہ سے اس فرمان کے با رے میں بات کی جو اس نے بتا یا تھا۔ انہوں نے کہا، “ اے بادشا ہ دارا! آپنے ایک فرمان بنایا ہے۔جس کے تحت اگلے تیس دنوں تک اگر کو ئی شخص کسی دیوتا سے یا تیرے سوا کسی اور شخص سے دعا کر تا ہے تو اے بادشا ہ!اسے شیرو ں کی ماند میں پھینک دیا جا ئے گا۔ بتایئے کیا آپ نے اس فرمان پر دستخط نہیں کئے تھے؟ ”

بادشا ہ نے جواب دیا، “ ہاں! میں نے اس فرمان پر دستخط کیا تھا اور مادیوں اور فارسیوں کے آئین اٹل ہو تے ہیں۔ نہ تو وہ بدلے جا سکتے ہیں اور نہ ہی مٹا ئے جا سکتے ہیں۔”

13 اس پر ان لوگوں نے بادشا ہ سے کہا، “دانیال نام کا وہ شخص آپ کی بات پر توجہ نہیں دے رہا ہے۔دانیال ابھی بھی ہر دن تین بار اپنے خدا سے دعا کر تا ہے۔”

14 بادشا ہ نےجب یہ سنا تو وہ بہت رنجیدہ ہوا۔بادشا ہ نے دانیال کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ بادشا ہ دانیال کو بچانے کی تدبیر کی کو شش میں شام تک سوچتے رہے۔ 15 تب وہ لوگ ایک گروہ کي شکل میں بادشا ہ کے پاس پہنچے۔ انہوں نے بادشا ہ سے کہا، “اے بادشا ہ یاد کر! مادیوں اور فارسیوں کی شریعت کے تحت جس فرمان یا حکم پر بادشا ہ دستخط کر دے، وہ نہ تو کبھی بدلا جا سکتا ہے اور نہ تو کبھی مٹا یا جا سکتا ہے۔”

16 اسلئے بادشا ہ دارانے حکم دیا اور وہ لوگ دانیال کو پکڑ کر لا ئے اور اسے شیروں کی ماند میں پھینک دیا۔ بادشا ہ نے دانیال سے کہا، “مجھے امید ہے کہ تو جس خدا کی ہمیشہ عبادت کر تا ہے۔ وہی تیری حفاظت کریگا۔” 17 ایک بڑا سا پتھر لا یا گیا۔اور اسے شیروں کی ماند کے منھ پر رکھ دیا گیا۔ پھر بادشا ہ نے اپنی انگوٹھی لی اور اس پتھر پر اپنی مہرلگا دی۔ساتھ ہی اس نے اپنے حاکموں کی انگوٹھیوں کی مہریں بھی اس پتھر پر لگا دیں۔اس کا مقصد یہ تھا تا کہ اس پتھر کو کو ئی بھی ہٹا نہ سکے اور شیرو ں کی اس ماند سے کو ئی دانیال کو با ہر نہ لا سکے۔ 18 تب بادشا ہ دارا اپنا محل وا پس چلا گیا اس رات اس نے کھانا نہیں کھا یا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کو ئی اس کے پاس آئے اور اسکا دل بہلا ئے۔بادشا ہ ساری رات سو نہیں پا یا۔

19 اگلی صبح جیسے ہی سورج کی روشنی پھیلنے لگی بادشا ہ دارا جاگ پڑا اور شیروں کی ماند کی جانب دو ڑا۔ 20 بادشا ہ بہت فکر مند تھا۔ بادشا ہ جب شیروں کی ماند کے پاس گیا تو وہا ں اس نے دانیال کو پکا را۔ بادشا ہ نے کہا، “اے دانیال! اے زندہ خدا کے بندے کیا تیرا خدا تجھے شیروں سے بچانے میں کامیاب ہو سکا ہے؟ تُو تو ہمیشہ ہی اپنے خدا کی خدمت کر تا رہا ہے۔”

21 دانیال نے جواب دیا، “اے بادشاہ تو ہمیشہ جیتا رہے۔ 22 میرے خدانے مجھے بچانے کے لئے اپنا فرشتہ بھیجا تھا۔اس فرشتے نے شیروں کے منھ بند کر دیئے۔ شیروں نے مجھے کو ئی نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ میرا خدا جانتا ہے کہ میں بے قصورہوں اور تیرے حضور بھی اے بادشا ہ میں نے کو ئی خطا نہیں کی۔”

23 باداشاہ دارا بہت خوش ہوا۔ بادشا ہ نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ دانیال کو شیروں کی ماند سے با ہر کھینچ لے۔ جب دانیال کو شیرو ں کی ماند سے با ہر لا یا گیا تو انہیں اس پر کہیں کو ئی زخم نہیں دکھا ئی دیا۔ شیروں نے دانیال کو کو ئی نقصان نہیں پہنچا یا تھا، کیونکہ دانیال اپنے خدا پر توکل کیا تھا۔ 24 تب بادشاہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے دانیال پر الزام لگا کر اسے شیروں کی ماند میں ڈلوایا تھا بلانے کا حکم دیا۔ اور ان لوگوں کو، ان کی بیویو ں کو اور انکے بچوں کو شیروں کی ماند میں ڈالوا دیا۔ ا س سے پہلے کہ وہ شیرو ں کی ماند میں زمین پر گرتے، شیروں نے انہیں دبوچ لیا،ان کے جسموں کو کھا گئے اور پھر ان کی ہڈیوں کو بھی چبا گئے۔

25 تب بادشا ہ دارانے روئے زمین کے لوگوں کو، دوسری قو م کے اہلِ لغت کو یہ نامہ لکھا:

“سلامت اور محفوظ رہو۔

26 میں ایک نیا فرمان بنا رہا ہوں۔ میری مملکت کے ہر حصے کے لوگوں کیلئے یہ فرمان ہو گا۔ تم سبھی لوگو ں کو دانیال کے خدا کا خوف کرنا اور اس کا احترام کر نا چا ہئے۔

دانیال کا خدا زندہ ہے
    اور ہمیشہ قائم ہے
اور اسکی سلطنت لا زوال ہے
    اور اسکی مملکت ابد تک رہے گی۔
27 خدا اپنے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے اور انہیں بچا تا ہے۔
    آسمان میں اور زمین پر وہی تعجب خیز کارنامے اور معجزے دکھا تا ہے۔
خدا نے دانیال کو شیروں سے بچا لیا۔”

28 اس لئے دانیال دارا کی دورِ حکو مت میں اور خورس فارسی دورِ حکو مت میں کامیاب رہا۔

Daniel in the Den of Lions

[a]It pleased Darius(A) to appoint 120 satraps(B) to rule throughout the kingdom, with three administrators over them, one of whom was Daniel.(C) The satraps were made accountable(D) to them so that the king might not suffer loss. Now Daniel so distinguished himself among the administrators and the satraps by his exceptional qualities that the king planned to set him over the whole kingdom.(E) At this, the administrators and the satraps tried to find grounds for charges(F) against Daniel in his conduct of government affairs, but they were unable to do so. They could find no corruption in him, because he was trustworthy and neither corrupt nor negligent. Finally these men said, “We will never find any basis for charges against this man Daniel unless it has something to do with the law of his God.”(G)

So these administrators and satraps went as a group to the king and said: “May King Darius live forever!(H) The royal administrators, prefects, satraps, advisers and governors(I) have all agreed that the king should issue an edict and enforce the decree that anyone who prays to any god or human being during the next thirty days, except to you, Your Majesty, shall be thrown into the lions’ den.(J) Now, Your Majesty, issue the decree and put it in writing so that it cannot be altered—in accordance with the law of the Medes and Persians, which cannot be repealed.”(K) So King Darius put the decree in writing.

10 Now when Daniel learned that the decree had been published, he went home to his upstairs room where the windows opened toward(L) Jerusalem. Three times a day he got down on his knees(M) and prayed, giving thanks to his God, just as he had done before.(N) 11 Then these men went as a group and found Daniel praying and asking God for help.(O) 12 So they went to the king and spoke to him about his royal decree: “Did you not publish a decree that during the next thirty days anyone who prays to any god or human being except to you, Your Majesty, would be thrown into the lions’ den?”

The king answered, “The decree stands—in accordance with the law of the Medes and Persians, which cannot be repealed.”(P)

13 Then they said to the king, “Daniel, who is one of the exiles from Judah,(Q) pays no attention(R) to you, Your Majesty, or to the decree you put in writing. He still prays three times a day.” 14 When the king heard this, he was greatly distressed;(S) he was determined to rescue Daniel and made every effort until sundown to save him.

15 Then the men went as a group to King Darius and said to him, “Remember, Your Majesty, that according to the law of the Medes and Persians no decree or edict that the king issues can be changed.”(T)

16 So the king gave the order, and they brought Daniel and threw him into the lions’ den.(U) The king said to Daniel, “May your God, whom you serve continually, rescue(V) you!”

17 A stone was brought and placed over the mouth of the den, and the king sealed(W) it with his own signet ring and with the rings of his nobles, so that Daniel’s situation might not be changed. 18 Then the king returned to his palace and spent the night without eating(X) and without any entertainment being brought to him. And he could not sleep.(Y)

19 At the first light of dawn, the king got up and hurried to the lions’ den. 20 When he came near the den, he called to Daniel in an anguished voice, “Daniel, servant of the living God, has your God, whom you serve continually, been able to rescue you from the lions?”(Z)

21 Daniel answered, “May the king live forever!(AA) 22 My God sent his angel,(AB) and he shut the mouths of the lions.(AC) They have not hurt me, because I was found innocent in his sight.(AD) Nor have I ever done any wrong before you, Your Majesty.”

23 The king was overjoyed and gave orders to lift Daniel out of the den. And when Daniel was lifted from the den, no wound(AE) was found on him, because he had trusted(AF) in his God.

24 At the king’s command, the men who had falsely accused Daniel were brought in and thrown into the lions’ den,(AG) along with their wives and children.(AH) And before they reached the floor of the den, the lions overpowered them and crushed all their bones.(AI)

25 Then King Darius wrote to all the nations and peoples of every language(AJ) in all the earth:

“May you prosper greatly!(AK)

26 “I issue a decree that in every part of my kingdom people must fear and reverence(AL) the God of Daniel.(AM)

“For he is the living God(AN)
    and he endures forever;(AO)
his kingdom will not be destroyed,
    his dominion will never end.(AP)
27 He rescues and he saves;(AQ)
    he performs signs and wonders(AR)
    in the heavens and on the earth.
He has rescued Daniel
    from the power of the lions.”(AS)

28 So Daniel prospered during the reign of Darius and the reign of Cyrus[b](AT) the Persian.(AU)

Footnotes

  1. Daniel 6:1 In Aramaic texts 6:1-28 is numbered 6:2-29.
  2. Daniel 6:28 Or Darius, that is, the reign of Cyrus