Add parallel Print Page Options

پولس کا بادشاہ اگرپا کے سامنے ہونا

26 اگرپا نے پو لس سے کہا، “تجھے اپنے دفاع میں بولنے کی اجازت ہے۔” تب پولس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور کہنا شروع کیا۔ “بادشاہ اگرّپا! جن الزا مات پر یہودیوں نے مجھ پر نالش کی ہے میں ان الزا مات کا جواب دوں گا اور میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا کہ میں خود اپنا دفاع آج آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ میں بہت خوش ہوں کیوں کہ آپ یہودیوں کی رسموں اور تمام مسئلوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لہذابراہ کرم صبرو تحمل سے میری بت سن لیں۔

“تمام یہودی میری زندگی کے حالات سے واقف ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں کس طرح ابتدا ء سے رہا ہوں اور میں یروشلم میں بھی کس طرح رہا ہوں۔ یہ یہودی مجھے شروع سے جانتے ہیں اگر وہ چا ہیں تو میرے گواہ ہوسکتے ہیں۔ کہ میں ا یک اچھا فریسی ہوں ہمیشہ یہودیوں کی شریعت کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور دوسرے یہودیوں کی نسبت فریسی اپنے دین کے متعلق نہا یت سخت ہیں۔ وہ اس وعدہ کی امید کے سبب سے مجھ پر مقدمہ دائر کر چکے ہیں جو خدا نے ہما رے باپ داداسے کیا تھا۔ اس وعدہ کے پورا ہو نے کی امید پر ہم لوگوں کے بارہ قبیلے دن رات خدا کی عبادت میں جٹے رہتے ہتں۔اے بادشاہ یہ یہودی صرف اس لئے مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں اس امید پر ہوں۔ آخر یہ لوگ اس کو کیوں نا قابل یقین پا تے ہیں کہ خدا مردوں کو اٹھا تا ہے۔

“بحیثیت فریسی میں نے بھی سوچا تھا کہ مجھے کئی باتیں یسوع ناصری کے نام کی مخالفت میں کر نی چاہئے۔ 10 اور جب میں یروشلم میں تھا اس نے ایسا ہی کیا میں نے کا ہنوں کے رہنما سے اجازت پا کر یسوع پر ایمان رکھنے والوں کو قید میں ڈالا اور جب انہیں قصور وار مان کر قتل کیا جاتا تو میر ی طرفداری بھی قصور کے موافق ہی ہو تی۔ 11 میں ہر یہودی عبادت خانے میں گیا اور انہیں اکثر سزا دی اور انہیں یسوع کے خلاف کہنے پر مجبور کیا میں بہت تشدد پسند ہو گیا تھا۔ میں دوسرے شہروں میں بھی گیا اور اہل ایمان کا تعاقب کرتا اور انہیں ستاتا۔

پولس کا یسوع کو دیکھنا

12 “ایک بار سردار کاہنوں نے مجھے اختیارات کے ساتھ شہر دمشق جانے کی اجازت دی۔ 13 جب میں دمشق جا رہاتھا تو اے بادشاہ!” میں نے دوپہر کے وقت راستے میں یہ دیکھا کہ آسمان میں ایک نور تھا جو سورج سے زیادہ چمک دار تھا۔ یہ نور میرے اور میرے ساتھیوں کے اطراف چھا گیا۔ 14 ہم سب زمین پر گر گئے تو میں نے ایک آواز یہودی زبان میں سنی “ساؤل ساؤل تو مجھے کیوں ستاتاہے۔اس طرح میرے خلاف لڑ تے ہو ئے تو اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔”

15 میں نے پوچھا! “خداوند آپ کون ہیں؟” اس نے کہا، “میں یسوع ہوں میں وہی ہوں جسے تم اذیت دے رہے ہو۔ 16 اٹھ اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوجا میں نے تجھے اپنا خادم چناہے تا کہ تو نے جو کچھ آج میرے بارے میں دیکھا ہے اور جو کچھ میں مستقبل میں بتاؤں گا اس کے لئے تو میرا گواہ رہے گا اسی لئے آج میں تجھ پر ظاہر ہوا ہوں۔ 17 میں تجھے تیرے اپنے لوگوں سے بچا ؤں گا کہ وہ تجھے ضرر نہ پہنچا ئیں۔ اور میں تجھے غیر قومو ں سے بھی بچا تا رہوں گا۔ میں تجھے ان کے پاس بھیج رہا ہوں۔ 18 تم ان لوگوں کی آنکھیں کھولو اور انہیں اندھیرے سے باہر نکا لو اور انہیں روشنی میں لے آؤ تب وہ شیطان کی ملکت سے باہر آکر خدا کی طرف رجوع ہو نگے۔ تب ان کے گناہ معاف کئے جائیں گے اور ا ن لوگوں کو ان میں شامل کیا جائے گا جو مجھ پر ایمان لا کر مقدس بن گئے ہیں۔”

پولس کا اپنے کام کے متعلق کہنا

19 پولس نے اپنی تقریر کو جاری رکھا، “اور کہا بادشاہ اگرپاّ! جب میں نے آسمان میں رویا دیکھا تو اس کا اطا عت گذار ہوا۔ 20 اور میں نے لوگوں سے باتیں کر نا شروع کیں تا کہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور اپنے دلوں اور زندگیوں کو بدل کر خدا کی طرف رجوع ہوجا ئیں میں نے یہ باتیں سب سے پہلے دمشق کے لوگوں سے کہیں اور پھر یروشلم گیا اور یہوداہ کے ہر خطے میں جا کر لوگوں سے یہی کہا۔ میں نے غیر یہودیوں سے بھی یہی باتیں کہیں۔

21 یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے مجھے ہیکل میں پکڑا اور مجھے مارڈالنے کی کوشش کی۔ 22 لیکن خدا نے میری مدد کی اور آج تک بھی مدد کر رہا ہے اور خدا کی مدد سے ہی آج میں یہاں کھڑا ہوں اور جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں لوگوں سے کہہ رہا ہوں اور کو ئی نئی بات ان سے نہیں کہتا میں وہی کہتا ہوں جو نبیوں نے اور موسیٰ نے ہو نے والے واقعات کے متعلق کہا تھا۔ 23 انہوں نے کہا تھا کہ مسیح مریگا وہ پہلا شخص ہو گا جو مر کر بھی زندہ ہو گا موسیٰ اور نبیوں نے کہا کہ یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں میں مسیح نور کی آمد کا اعلان کریگا۔”

پو لس کا اگرّپا کو منانے کی کو شش کر نا

24 جب پو لس اپنی دفاع میں یہ سب کچھ کہہ رہا تھا تو فیستس نے بلند آواز سے کہا، “پو لس! تو دیوانہ ہے زیادہ علم نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے۔”

25 پو لس نے کہا، “عزت مآب فیتس میں دیوانہ نہیں ہوں جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچّ ہے میری باتیں دیوانہ کی تقریر نہیں ہیں میں منطقی ہوں۔ 26 بادشاہ اگرپّا ان تمام باتوں کے متعلق جانتا ہے اور ان سے میں بے باک کہتا ہوں اور مجھے یقین ہے وہ یہ سب کچھ اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیوں کہ یہ تمام چیزیں کہیں خفیہ نہیں ہو ئیں بلکہ سب لوگ ان کو دیکھ چکے ہیں۔ 27 اے اگرپّا بادشاہ کیا تم نبیوں کی لکھی ہو ئی باتوں پریقین کر تے ہو میں جانتا ہوں کہ تمہیں یقین ہے۔”

28 بادشاہ اگرّپا نے پو لس سے کہا، “کیا تو سوچ رہا ہے کہ تو اس طرح نصیحت کر کے مجھے مسیحی بنا سکے گا ؟”

29 پو لس نے کہا، “اگر یہ آسان ہے یا اگر یہ مشکل ہے، یہ اہم بات نہیں ہے میں تو خدا سے دعا کر تا ہوں کہ نہ صرف تم بلکہ ہر ایک جو آج میری باتوں کو سنا انہیں نجات ملے اور میری طرح ہو جائیں، سوا ان زنجیروں کے۔”

30 تب بادشاہ اگرّپا اور حاکم اور برنیکے اور ان کے ہم نشیں اٹھ کھڑے ہو ئے۔ 31 اور کمرہ سے باہر چلے گئے اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے، “یہ آدمی ایسا تو کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ موت یا قید کا مستحق ہو۔” 32 اگرّپا نے فیستس سے کہا، “ہم اسکو چھوڑ سکتے تھے لیکن اس نے قیصر سے ملنے کی درخواست کی ہے۔”

26 Then Agrippa said to Paul, “You have permission to speak for yourself.”(A)

So Paul motioned with his hand(B) and began his defense: “King Agrippa, I consider myself fortunate to stand before you(C) today as I make my defense against all the accusations of the Jews,(D) and especially so because you are well acquainted with all the Jewish customs(E) and controversies.(F) Therefore, I beg you to listen to me patiently.

“The Jewish people all know the way I have lived ever since I was a child,(G) from the beginning of my life in my own country, and also in Jerusalem. They have known me for a long time(H) and can testify, if they are willing, that I conformed to the strictest sect(I) of our religion, living as a Pharisee.(J) And now it is because of my hope(K) in what God has promised our ancestors(L) that I am on trial today. This is the promise our twelve tribes(M) are hoping to see fulfilled as they earnestly serve God day and night.(N) King Agrippa, it is because of this hope that these Jews are accusing me.(O) Why should any of you consider it incredible that God raises the dead?(P)

“I too was convinced(Q) that I ought to do all that was possible to oppose(R) the name of Jesus of Nazareth.(S) 10 And that is just what I did in Jerusalem. On the authority of the chief priests I put many of the Lord’s people(T) in prison,(U) and when they were put to death, I cast my vote against them.(V) 11 Many a time I went from one synagogue to another to have them punished,(W) and I tried to force them to blaspheme. I was so obsessed with persecuting them that I even hunted them down in foreign cities.

12 “On one of these journeys I was going to Damascus with the authority and commission of the chief priests. 13 About noon, King Agrippa, as I was on the road, I saw a light from heaven, brighter than the sun, blazing around me and my companions. 14 We all fell to the ground, and I heard a voice(X) saying to me in Aramaic,[a](Y) ‘Saul, Saul, why do you persecute me? It is hard for you to kick against the goads.’

15 “Then I asked, ‘Who are you, Lord?’

‘I am Jesus, whom you are persecuting,’ the Lord replied. 16 ‘Now get up and stand on your feet.(Z) I have appeared to you to appoint you as a servant and as a witness of what you have seen and will see of me.(AA) 17 I will rescue you(AB) from your own people and from the Gentiles.(AC) I am sending you to them 18 to open their eyes(AD) and turn them from darkness to light,(AE) and from the power of Satan to God, so that they may receive forgiveness of sins(AF) and a place among those who are sanctified by faith in me.’(AG)

19 “So then, King Agrippa, I was not disobedient(AH) to the vision from heaven. 20 First to those in Damascus,(AI) then to those in Jerusalem(AJ) and in all Judea, and then to the Gentiles,(AK) I preached that they should repent(AL) and turn to God and demonstrate their repentance by their deeds.(AM) 21 That is why some Jews seized me(AN) in the temple courts and tried to kill me.(AO) 22 But God has helped me to this very day; so I stand here and testify to small and great alike. I am saying nothing beyond what the prophets and Moses said would happen(AP) 23 that the Messiah would suffer(AQ) and, as the first to rise from the dead,(AR) would bring the message of light to his own people and to the Gentiles.”(AS)

24 At this point Festus interrupted Paul’s defense. “You are out of your mind,(AT) Paul!” he shouted. “Your great learning(AU) is driving you insane.”

25 “I am not insane, most excellent(AV) Festus,” Paul replied. “What I am saying is true and reasonable. 26 The king is familiar with these things,(AW) and I can speak freely to him. I am convinced that none of this has escaped his notice, because it was not done in a corner. 27 King Agrippa, do you believe the prophets? I know you do.”

28 Then Agrippa said to Paul, “Do you think that in such a short time you can persuade me to be a Christian?”(AX)

29 Paul replied, “Short time or long—I pray to God that not only you but all who are listening to me today may become what I am, except for these chains.”(AY)

30 The king rose, and with him the governor and Bernice(AZ) and those sitting with them. 31 After they left the room, they began saying to one another, “This man is not doing anything that deserves death or imprisonment.”(BA)

32 Agrippa said to Festus, “This man could have been set free(BB) if he had not appealed to Caesar.”(BC)

Footnotes

  1. Acts 26:14 Or Hebrew