Add parallel Print Page Options

پطرس کا یروشلم واپس ہونا

11 یہوداہ میں رسولوں اور بھا ئیوں میں سنا کہ غیر یہودیوں نے بھی خدا کی تعلیم کو قبول کرلیا ہے۔ جب پطرس یروشلم میں آیا تو کچھ یہودی جو اہل ایمان تھے اس سے بحث کر نے لگے۔ انہوں نے کہا، “تم ایسے لوگوں کے گھر میں گئے جو یہودی نہیں مختون بھی نہیں حتیٰ کہ تم نے انکے ساتھ کھا نا کھایا۔”

چنانچہ پطرس نے انکو سارا واقعہ سنایا۔ پطرس نے کہا، “جب میں جوفا شہر میں تھا اور میں دعا میں مشغول تھا تو میں نے رویا میں دیکھا کو ئی چیز چادر جیسی لٹکتی ہوٹی زمین کی طرف آرہی ہے وہ چیز میرے قریب آکر ٹھہر گئی۔ اس پر میں نے نظر کی تو اس میں زمین کے چوپا ئے اور جنگلی جانور کیڑے مکوڑے اور پرندے دیکھے۔ میں نے ایک آواز سنی جو مجھ سے کہہ رہی تھی “اے پطرس اٹھو!ان میں سے کسی بھی جانور کو مارو اور اسے کھا ؤ۔”

لیکن میں نے کہا نہیں اے خدا وند!میں نے کبھی بھی کوئی بھی ایسی چیزوں کو نہیں کھا یا جو حرام و ناپاک ہو۔

لیکن دوبارہ ہی آسمان سے آواز آئی کہا کہ جن کو خدا نے پاک و طاہر کیا اسے تم نجس نہ کہو۔

10 اس طرح تین مرتبہ ہوا پھر سب چیزیں آسمان کی طرف چلی گئیں۔ 11 اسکے بعد ہی تین آدمی اس مکان پر آئے جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا ان تینوں آدمیوں کوقیصریہ سے میرے پاس بھیجا گیا۔ 12 روح نے کہا کہ میں بلا کسی جھجھک ان کے ساتھ جاؤں اور یہ چھ بھائی جو میرے ساتھ آئے ہیں اور ہم کرنیلیس کے گھر میں داخل ہوں۔ 13 کرنیلیس نے فرشتے کے متعلق کہا جو اس نے اپنے گھر میں کھڑا دیکھا تھا اس فرشتہ نے کرنیلیس سے کہا، “ کچھ آدمیوں کو جوفا بھیجو تا کہ وہاں سے شمعون پطرس کو بلایا جائے۔” 14 وہ تم سے وہ باتیں کہے گا جس سے تم اور تمہارے گھر میں رہنے والے سب لوگ نجات پائیں گے۔

15 جب میں بولنا شروع کیا تو وہ روح القدس ان پر اس طرح نازل ہوا جس طرح شروع میں ہم پر نازل ہوا تھا۔ 16 تب میں نے خدا وند کے الفاظ کو یاد کیا۔خداوند نے کہا کہ یوحنا نے لوگوں کو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم کو روح القدس سے بپتسمہ دیا جائیگا۔ 17 خدا نے ان لوگوں کو وہی نعمت عطا کی جو ہمیں خدا وند یسوع مسیح پر ایمان لا نے سے ملی تھی۔ تو پھر مجھے کیا اختیار تھا کہ میں خدا کے کام کو روک سکتا۔

18 جب یہودیوں نے اہل ایمان سے یہ سنا تو انہوں نے بحث نہیں کی وہ خدا کی تعریف کر نے لگے پھر کہا، “خدا نے غیر یہودی قوم کو بھی توبہ کر نے کی مہلت دی ہے تا کہ وہ بھی ہماری طرح زندگی گزاریں۔”

انطاکیہ سے خوشخبری کا آنا

19 پس اسٹیفن کی موت کے بعد جو لوگ مصیبت میں گھر کر ادھر ادھر منتشر ہو گئے تھے۔ گھومتے پھر تے فیکیے، قبرص اور انطاکیہ میں پہونچے اور ان مقامات پر وہ خدا کی خوشخبری سنائے مگر یہودیوں کے سوا اور کسی کو کلام نہ سنا تے تھے۔ 20 ان میں سے کچھ لوگوں کا قبرص سے اور کچھ کا سائرن سے تعلق تھا اور جب یہ انطاکیہ آئے تو انہوں نے یونانیوں کو بھی خدا وند یسوع کے متعلق خوشخبری دی۔ 21 انکے ساتھ خداوند کی مدد ہمیشہ ساتھ تھی اور کثیر لوگوں کا گروہ ایمان لے آیا اور خداوند کی طرف رجوع ہوئے۔

22 ا ن لوگوں کی خبر یروشلم کے کلیساء کے کانوں تک پہونچی تو انہوں نے برنباس کو انطاکیہ بھیجا۔ 23-24 برنباس ایک اچھا آدمی تھا۔ وہ کامل عقیدہ رکھتا تھا اور روح القدس سے معمور تھا۔ جب برنباس انطاکیہ پہونچا تو اس نے دیکھا کہ ان پر خدا کا فضل ہے اس وجہ سے بر نباس بہت خوش ہوا اس نے انطاکیہ کے اہل ایمان کو تقویت دی اور انہیں یہ نصیحت کی کہ “اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں اور ہمیشہ خداوند کی فرماں برداری اپنے دل سے کریں۔”اس طرح بہت سارے لوگ خداوند کو ماننے لگے۔

25 تب برنباس شہر طر سوس کی طرف چلا وہ ساؤل کی تلاش میں تھا۔ 26 جب ساؤل اسکو ملا تو اس نے اسکو انطاکیہ لے آیا۔ ساؤل اور برنباس دونوں وہاں تقریباً ایک سال تک رہے۔ ہر وقت اہل ایمان کے گروہ ایک جگہ جمع ہو تے تو ساؤل اور برنباس ان سے ملتے تعلیم دیتے اور یسوع کے ماننے والے پہلی مرتبہ انطاکیہ ہی میں “مسیحی ” کہلا ئے۔

27 انہی دنوں میں چند نبی یروشلم سے انطاکیہ آئے۔ 28 ان میں سے ایک جس کا نام اگبس تھا انطاکیہ میں روح القدس کی رہنمائی سے اس بات کا اعلان کیا کہ ساری دنیا میں “برا وقت آئیگا اور قحط پڑیگا۔”اور قحط کلودیس کے زمانے میں بھی واقع ہوا تھا۔ 29 تب اہل ایمان نے طے کیا کہ اب انہیں اپنی بہنوں بھائیوں کی مدد کر نی ہوگی جو یہوداہ میں رہتے ہیں ہر ایک اپنی بساط کے مطابق جو کر سکتا ہے کرے۔ ہر ماننے والے نے یہ طے کیا ہر ایک سے جو مدد ہو سکے وہ کرے۔ 30 انہوں نے رقم جمع کی اور ساؤل اور برنباس کے حوالہ کی اور ان دونوں نے یہوداہ میں اس کو بزرگ لوگوں کے سپرد کیا۔