Add parallel Print Page Options

شادی کی مثال

اے بھا ئیو اوربہنو! کیا تم نہیں جانتے (میں ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو شریعت کو جانتے ہیں ) کہ جب تک آدمی جیتا ہے اسی وقت تک شریعت اس پر اختیار رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شادی شدہ عورت شریعت کے مطا بق اپنے شوہر کی زندگی تک ہی پابند رہتی ہے لیکن جب اسکا شوہر مر جاتا ہے تو وہ بیاہتا کی پا بندی سے آزاد ہو جا تی ہے۔ شوہر کی زندگی میں اگر کسی دوسرے شخص سے رشتہ رکھے تو وہ زانیہ ہے۔ لیکن اسکا شوہر مرگیا ہے تو بیاہتا کی شریعت اس پر لا گو نہیں ہو تی یہاں تک کہ اگر وہ دوسرے مرد کی بھی ہو جائے تو بھی وہ حرام کاری کر نے کی قصور وار نہ ٹھہرے گی۔

پس اے میرے بھائیو اور بہنو! تم بھی مسیح کے بدن کے وسیلے شریعت کے اعتبار سے مر چکے ہو اسی لئے اب تم بھی کسی دوسرے کے ہو جاؤ جو مرُدوں میں سے جلایا گیا تاکہ تم خدا کے لئے کھیتی پیدا کر سکو۔ جب ہم گنہگار فطرت کے مطابق جی رہے ہیں اس سے گناہ کے جذبہ کی خواہش جو شریعت کے باعث آئی تھی وہ ہمارے جسموں پر حاوی تھا تا کہ ہم عمل کی ایسی کھیتی کریں جسکا خاتمہ صرف روحانی موت میں ہو۔ لیکن اب ہمیں شریعت سے آزاد کردیا گیا ہے کیوں کہ جس شریعت کے تحت ہم کو قید میں ڈالا گیا تھا ہم اس کے لئے مر چکے ہیں۔اور اب خدا کی خدمت روحانی طور پر نئے طریقے سے کر تے ہیں نہ کہ لکھے ہوئے پرا نے اصول کے طور پر کر تے ہیں۔

گناہ کے خلاف لڑا ئی

پس ہم کیا کہیں ؟ کیا ہم کہیں کہ وہ شریعت گناہ ہے ؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ حقیقت میں اگر شریعت نہ ہو تی تو میں پہچان ہی نہیں پا تا کہ گناہ کیا ہے ؟مثلاًاگر شریعت نہ کہتی کہ “تو خواہش نہ کر کہ وہ تیرا نہیں ہے” [a] تو میں نہ جانتا کہ خواہش کا کرنا غلطی ہے۔ مگر گناہ نے موقع پا کر اس حکم کے ذریعہ سے مجھ میں ہر طرح کی غلط خواہشات پیدا کردی۔ کیوں کہ شریعت کے بغیر گناہ مردہ ہے۔ ایک زمانے میں میں شریعت کے بغیر زندہ تھا۔ مگر جب شریعت آئی تب گناہ زندگی میں ابھر آیا۔ 10 اور میں مر گیا۔ وہی شریعت جو زندگی کا حکم دینے کے لئے تھی میرے لئے موت لے آئی۔ 11 کیوں کہ گناہ نے موقع پا کر اس حکم کے ذریعے سے مجھے بہکایا اور اسی کے ذریعے سے مجھے بھی مارڈالا۔

12 پس شریعت مقدس ہے اور اسکا حکم بھی مقدس اور راستباز اور اچھا ہے۔ 13 تب پھر کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جو اچھا ئی ہے وہی میری موت کا سبب بنا ؟ہر گز نہیں۔ بلکہ گناہ میرے واسطے موت لا نے کے لئے کچھ اچھی چیز استعمال کیا یہ ایسا ہوا تا کہ ہم گناہ کو پہچان سکیں۔ یہ ایسا ہوا یہ ظا ہر کر نے کے لئے کہ گناہ بہت ہی برا ہے۔ اور اسے ظا ہر کر نے کے لئے حکم کا استعمال کیا گیا۔

انسان کی اندرونی کشمکش

14 کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو روحانی ہے لیکن میں روحانی نہیں ہوں۔ مگر میں گناہ کے لئے غلام بنکر بکا ہوا ہوں۔ 15 میں نہیں جانتا کہ میں کیا کر رہا ہوں کیوں کہ میں جو کر نا چاہتا ہوں وہ نہیں کر تا۔ بلکہ جس سے مجھے نفرت ہے اور وہی کر تا ہوں۔ 16 اور اگر چہ میں وہی کر تا ہوں جو مجھے نہیں کرنا چاہئے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں قبول کرتا ہوں کہ شریعت خوب ہے۔ 17 لیکن اصل میں میں وہ نہیں ہوں جو یہ سب کچھ کر رہا ہوں یہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔ 18 ہاں میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہو ئی نہیں۔ حالانکہ مجھے نیک کام کر نے کی خواہش تو ہے۔ نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ 19 کیوں کہ اچھا کام کر نا پسند کرتا ہوں لیکن وہ تو نہیں کر تا۔ مگر جس برے کام کا ارادہ نہیں کر تا اسے کر لیتا ہوں۔ 20 اور اگر میں وہی کام کر تا ہوں جنہیں نہیں کر نا چاہتا تو اس کا کر نے والا میں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں رہتا ہے۔

21 غرض میں ایسی شریعت پا تا ہوں کہ جب نیکی کا ارادہ کر تا ہوں تو بدی میرے پاس رہتی ہے۔ 22 کیونکہ باطنی انسانیت کی رو سے میں خدا کی شریعت میں خوش ہوں۔ 23 لیکن میں اپنے جسم میں ایک دوسری ہی شریعت کو کام کر تے دیکھتا ہوں جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے بدن میں ہے۔ 24 میں ایک کمبخت انسان ہوں مجھے اس بدن سے جو موت کا نوالہ ہے نجات کون دلائے گا۔ 25 اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے میں خدا کا شکر کر تا ہوں۔

غرض میں خود ہی خدا کی شریعت کی خدمت اپنی عقل سے کر تا ہوں لیکن انسا نی فطرت میں گناہ کی شریعت کی خدمت کر تا ہوں۔

Footnotes

  1. رومیوں 7:7 اِقتِباس خروج ۱۷:۲۰