Add parallel Print Page Options

تخم ریزی کو تمثیل بنا کر یسوع نے تعلیم دی

13 اسی دن یسوع گھر سے نکل کر جھیل کے کنارے جاکر بیٹھ گئے۔ اور کئی لوگ یسوع کے اطراف جمع ہو گئے۔ تب یسوع کشتی میں جا بیٹھے اور تمام لوگ جھیل کے کنارے کھڑے تھے۔ تب یسوع نے تمثیلوں کے ذریعہ کئی چیزیں انہیں سکھا ئیں۔ اور یسوع انکو یہ تمثیل دینے لگے کہ

ایک کسان بیج بونے کے لئے گیا۔ “جب وہ تخم ریزی کررہا تھا تو چند بیج راستے کے کنارے پر گرے۔ اور پرندے آکر ان تمام بیجوں کو چگ گئے۔ چند بیج پتھریلی زمین میں گر گئے۔ اس زمین میں زیا دہ مٹی نہ ہو نے کے وجہ سے بیج بہت جلد اگ آئے۔ لیکن جب سورج ابھرا، اس نے پودوں کو جھلسا دیا۔ تو وہ اُگے ہوئے پو دے سوکھ گئے۔ اس لئے ان کی جڑیں گہرا ئی تک نہ جا سکیں۔ دیگر چند بیج خا ر دار جھا ڑیوں میں گر گئے۔اور وہ خا ر دار جھا ڑیوں نے ان کو دبا کر ان اچھے بیجوں کی فصل کو آگے بڑ ھنے سے روک دیا۔ دوسرے چند بیج اچھی زر خیز زمین میں گر گئے۔ اور وہ نشو نما پا کر ثمر آور ہوئے بعض پودے صد فیصد بیج دیئے ،اور بعض پودے ساٹھ فیصد سے زیادہ اور بعض نے تیس فیصد سے زائد بیج دئیے۔ میری باتوں پر کان دھر نے والے لوگوں نے ہی غور سے سنا۔”

یسوع نے تمثیلوں کا استعمال کیوں کیا ؟

10 تب شاگرد یسوع کے پا س آکر پوچھنے لگے“آپ تمثیلوں کے ذریعہ لو گوں کو کیوں تعلیم دیتے ہیں؟”۔

11 یسوع نے کہا، “خدا کی بادشاہت کی پو شیدہ سچا ئی کو سمجھنے کی صرف تم میں صلا حیت ہے۔ اور ان پوشیدہ سچا ئی کو دیگر لوگ سمجھ نہیں پاتے 12 جس کو تھوڑا علم و حکمت دی گئی ہے وہ مزید علم حا صل کر کے علم و حکمت وا لا بنے گا۔ لیکن جو علم وحکمت سے عا ری ہو گا۔ وہ اپنے پاس کا معمو لی نام علم بھی کھو دے گا۔ 13 اسی لئے میں ان تمثیلوں کے ذریعہ لو گوں کو تعلیم دیتا ہوں۔ ان لوگوں کا حا ل یہ ہے کہ یہ دیکھ کر بھی نہیں دیکھنے کے برا بر اور سن کر بھی نہ سننے کے برا بر ہیں۔ 14 ایسے لو گو ں کے بارے میں یسعیاہ نے جو کہا وہ سچ ہوا:

تم غورو فکر کر تے ہو، اور سنتے ہو
    لیکن تم سمجھتے نہیں
حا لا نکہ تم دیکھتے ہو
    لیکن جو کچھ تم دیکھتے ہو اس کے معنی تم سمجھتے نہیں ہو۔
15 ہاں ان لوگوں کے ذہن کند ہو گئے ہیں اور کان بہرے ہو گئے ہیں اور آنکھوں کی روشنی ماند پڑ گئی ہے۔
    وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی نہ دیکھنے وا لوں کی طرح
    اور اپن کانوں سے سن کر بھی نہ سننے والوں کی طرح
    اور دل رکھتے ہوئے بھی نہ سمجھ میں آنے وا لوں کی طرح
    میری طرف متوجہ نہ ہو نے والوں کی طرح
اور میری طرف سے شفا ء نہ پا نے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ [a]

16 تم تو قابل مبارک باد ہو۔ اپنے سامنے نظر آنے والے واقعات اور سنے جانے والے حالات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔ 17 میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ جو کچھ تم ابھی دیکھتے ہو اسے بہت سارے نبی اور بہت سارے راستباز لوگ دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور کئی نبیوں اور نیک لوگوں نے وہ باتیں سننی چاہیں جو تم سن رہے ہو لیکن انہوں نے کبھی نہیں سنیں

تخم ریزی سے متعلق یسوع کی وضاحت

18 “ایسی صورت میں کسان کے متعلق کہی گئی تمثیل کے معنی سنو۔

19 سڑک کے کنارے میں گر نے والے بیج سے مرا د کیا ہے ؟راستے کے کنارے گرے بیج اس آدمی کی مانند ہیں جو آسمانی بادشاہت کے متعلق تعلیمات کو سن رہا ہے لیکن سمجھ نہیں رہا ہے۔ اسکو نہ سمجھنے والا انسان ہی راستے کے کنارے گرے ہو ئے بیج کی طرح ہے۔ برا شخص آکر اس آدمی کے دل میں بوئے گئے بیجوں کو نکال کر باہر پھینک دیتا ہے۔

20 اور پتھریلی زمین میں گرے ہو ئے بیج سے مراد کیا ہے ؟ وہ بیج اس شخص کی مانند ہے جو بخوشی تعلیمات کو سنتا ہے اور ان تعلیمات کو بخوشی فوراً قبول کر لیتا ہے۔ 21 لیکن وہ آدمی جو کلام کو اپنی زندگی میں مستحکم نہیں بنا تا اور وہ اس کلام پر ایک مختصر وقت کے لئے عمل کرتا ہے۔ اور اس کلام کو قبول کر نے کی وجہ سے خود پر کو ئی تکلیف یا مصیبت آتی ہے تو وہ اسکو جلد ہی چھوڑ دیتا ہے۔

22 “خار دار جھا ڑیوں کے بیچ میں گر نے والے بیج سے کیا مراد ہے تعلیم کو سننے کے بعد زندگی کے تفکّرات میں اور دولت کی محبت میں تعلیم کو اپنے میں پر وان نہ چڑھا نے والا ہی خار دار زمین میں بیج کے گرنے کی طرح ہے۔یہی وجہ ہے کہ تعلیم اس آدمی کی زندگی میں کچھ پھل نہ دیگی۔

23 اور کہا کہ اچھی زمین میں گرنے والے بیج سے کیا مراد ہے ؟تعلیم کو سن کر اور اسکو سمجھ کر جاننے والا شخص ہی اچھی زمین پر گرے ہو ئے بیج کی طرح ہو گا۔ وہ آدمی پر وان چڑھکر بعض اوقات سو فیصد اور بعض اوقات ساٹھ فیصد اور بعض اوقات تیس فیصد پھل دیگا۔”

گیہوں اور گھاس پھوس کی تمثیل

24 تب یسوع انکو ایک اور تمثیل کے ذریعہ تعلیم دینے لگے۔ وہ یہ کہ“ آسمان کی بادشاہت سے مراد ایک اچھے بیج کو اپنے کھیت میں بونے والے ایک کسان کی طرح ہے۔ 25 اس رات جب کہ سب لوگ سو رہے تھے تو اسکا ایک دشمن آیا اور گیہوں میں گھاس پھوس کو بودیا۔ 26 جب گیہوں کا پو دا نشو نما پا کر دانہ دار بن گیا تو اسکے ساتھ گھا س پھوس کے پو دے بھی بڑھنے لگے۔ 27 تب اس کسان کے خادم نے اسکے پاس آکر دریافت کیا کہ تو اپنے کھیت میں اچھے دانوں کو بویا۔ مگر وہ گھاس پھوس کا پو دا کہاں سے آ گیا ؟

28 اس نے جواب دیا، “یہ دشمن کا کام ہے تب ان خادموں نے پو چھا کہ کیا ہم جاکر اس گھاس پھوس کے پو دے کو اکھاڑ پھینکیں۔

29 “اس آدمی نے کہا کہ ایسا مت کرو کیوں کہ تم گھاس پھوس کو نکالتے وقت گیہوں کو بھی نکال پھینکو گے۔ 30 فصل کی کٹا ئی تک گوکھر و دانے اور گیہوں دونوں کو ایک ساتھ اگنے دو۔ فصل کی کٹائی کے وقت میں مزدوروں سے کہتا ہو کہ پہلے گھا س پھوس بیجوں کو جمع کرو اور جلانے کے لئے ان کے گٹھے باندھ دو اور پھر اسکے بعد گیہوں کو یکجا کر کے اسکو میرے گودام میں رکھو-”

مختلف تمثیلوں کے ذریعہ یسوع کی تعلیم

31 تب یسوع نے ایک اور تمثیل لوگوں سے کہی “آسما نی باد شاہت را ئی کے دا نے کے مشا بہ ہے۔ کسی نے اپنے کھیت میں اس کی تخم ریزی کی۔ 32 وہ ہر قسم کے دانوں میں بہت چھو ٹا دانہ ہے۔ اور جب وہ نشو نما پا کر بڑھتا ہے تو کھیت کے دوسرے درختوں سے لمبا ہو تا ہے۔ جب وہ درخت ہو تا ہے تو پرندے آکر اس کی شاخوں میں گھونسلے بناتے ہیں۔”

33 پھر یسوع نے لوگوں سے ایک اور تمثیل کہی “آسما نی بادشاہت خمیر کی مانند ہے جسے ایک عورت نے روٹی پکا نے کے لئے ایک بڑے برتن جسمیں آٹا ہے اور اس میں خمیر ملا دی ہے۔ گو یا وہ پورا آٹا خمیر کی طرح ہو گیا ہے۔”

34 یسوع ان تمام باتوں کو تمثیلوں کے ذریعے بیان کر نے لگے۔ جب بھی وہ تعلیم وتلقین کر تے تو تمثیلوں کے ذریعہ ہی سمجھا تے۔ 35 نبی کی کہی ہو ئی یہ بات مع تمثیلوں کے اس طرح پو ری ہوئی:

“میں تمثیلوں کا استعما ل کر کے کلا م کرو نگا،
    میں ان باتوں کو جن پر دنیا کے وجود سے اب تک پر دے پڑے ہیں بیان کرونگا۔” [b]

مشکل تمثیل کے لئے یسوع کی وضا حت

36 تب یسوع لوگوں کو چھوڑ کر گھرچلے گئے۔ انکے شاگرد انکے قریب گئے اور ا ن سے کہا،” گو کھر و بیجوں سے متعلق تمثیل ہم کو سمجھا ؤ۔”

37 یسوع نے جواب دیا ، اس طرح کھیت میں اچھے قسم کے بیجوں کی تخم ریزی کر نے وا لا ہی ابن آدم ہے۔ 38 کھیت یہ دنیا ہے۔ اچھے بیج ہی آسما نی بادشاہت میں شا مل ہو نے وا لے خدا کے بچے ہیں اور بر ے وبد کا روں سے رشتے رکھنے وا لے ہی وہ گو کھر وکے بیج ہیں۔ 39 کڑ وے بیج کو بو نے وا لا دشمن ہی وہ شیطا ن ہے۔ فصل کی کٹا ئی کا مو سم ہی دنیا کا اختتام ہے اور اس کو جمع کر نے وا لے مز دور ہی خدا کے فرشتے ہیں۔

40 “کڑ وے دانوں کے پودوں کو اکھا ڑ کر اس کو آ گ میں جلا دیتے ہیں اور دنیا کے اختتا م پر ہو نے وا لا یہی کام ہے۔ 41 ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا۔اور اس کے فرشتے گنا ہوں میں ملوث برے اور شر پسند لو گوں کو جمع کریں گے۔ اور وہ انکو اس کی بادشاہت سے باہر نکال دیں گے۔ 42 فرشتے ان لوگوں کو آ گ میں پھینک دیں گے۔اور وہاں وہ تکلیف سے رو تے ہوئے اپنے دانتوں کو پیستے رہیں گے۔ 43 تب اچھے لوگ سورج کی مانند چمکیں گے۔ وہ اپنے باپ کی بادشا ہی میں ہو ں گے۔ میری باتوں پر توجہ دینے والے لوگو غور سے سنو۔

خزانوں اور موتیوں کی تمثیل

44 “آسما نی بادشاہت کھیت میں گڑے ہو ئے خزا نے کی مانند ہے۔ایک دن کسی نے اس خزا نے کو پا لیا۔ او ربے انتہا مسر ّت وخوشی سے اس کو کھیت ہی میں چھپا کر رکھ دیا۔ تب پھر اس آدمی نے اپنی سا ری جا ئیداد کو بیچ کر اس کھیت کو خرید لیا۔

45 “آسما نی بادشاہت عمدہ اور اصلی موتیوں کو ڈھونڈ نے وا لے ا یک سوداگر کی طرح ہے جو قیمتی موتیوں کی تلا ش کر تا ہے۔ 46 ایک دن اس تا جر کو بہت ہی قیمتی ایک مو تی ملا۔تب وہ گیا اور اپنی تمام جائیداد کو فروخت کر کے اس موتی کو خرید لیا۔

مچھلی کے جال سے متعلق تمثیل

47 “آسما نی بادشاہت سمندر میں ڈالے گئے اس مچھلی کے جال کی طرح ہےجس میں مختلف قسم کی مچھلیاں پھنس گئیں۔ 48 تب وہ جال مچھلیوں سے بھر گیا۔ مچھیرے اس جال کو جھیل کے کنا رے لائے اور اس سے اچھی مچھلیاں ٹوکریوں میں ڈال لیں اور خراب مچھلیوں کو پھینک دئیے۔ 49 اس دنیا کے اختتا م پر بھی ویسا ہی ہوگا۔فرشتے آئیں گے اور نیک کا روں کو بد کاروں سے الگ کریں گے۔ 50 فرشتے برے لوگوں کو آ گ کی بھٹی میں پھنک دیں گے۔ اس جگہ لوگ روئیں گے۔درد وتکلیف میں اپنے دانتوں کو پیسیں گے۔”

51 یسوع نے اپنے شاگردوں سے پوچھا، “کیا تم ان تمام باتوں کو سمجھ گئے ہو؟” شاگردوں نے جواب دیا “ہم سمجھ گئے ہیں”

52 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا،“ آسما نی باد شاہت کے بارے میں تعلیم دینے وا لا ہر ایک معلم شریعت ما لک مکان کی طرح ہوگا جو پرانی چیزو ں کو اس گھر میں جمع کر کے ان کو پھر باہر نکا لے گا۔”

پیدائشی گاؤں کے لئے یسوع کا سفر

53 یسوع ان تمثیلوں کے ذریعے تعلیم دینے کے بعد وہاں سے چلے گئے۔ 54 تب وہ اپنے گاؤں گئے۔یسوع جب یہودی عبادت گاہ میں تعلیم دے رہے تھے تو لوگ تعجب کر نے لگے۔آپس میں کہنے لگے “یہ سوچ،سمجھ،حکمت،علم اور معجزے دکھا نے کی قوت کہاں سے پا ئی ہے؟ 55 یہ تو صرف ایک بڑھئی کا بیٹا ہے۔ اور اس کی ماں مریم ہے۔یعقوب ،یوسف اور شمعون ان کے بھا ئی ہیں۔ 56 اور اس کی سب بہنیں ہما رے پاس ہیں۔ اور آپس میں باتیں کر نے لگے کہ ایسے میں یہ حکمت اور معجزے دکھا نے کی طا قت کہاں سے پا ئی ہے؟” 57 اس کو کسی نے قبول نہ کیا۔

یسوع نے ان سے کہا، “دوسرے لوگ نبی کی تعظیم کر تے ہیں لیکن نبی کے گاؤں کے لوگ اور اس کے خاندان کے افرادعزت نہیں دیتے۔” 58 چونکہ ان لوگوں میں ایمان نہ ہو نے کی وجہ سے اس نے وہاں کئی معجزے نہیں دکھا ئے۔

Footnotes

  1. متّی 13:15 یسعیاہ ۶:۹-۱۰
  2. متّی 13:35 زبور ۷۸:۲

The Parable of the Sower(A)(B)(C)

13 That same day Jesus went out of the house(D) and sat by the lake. Such large crowds gathered around him that he got into a boat(E) and sat in it, while all the people stood on the shore. Then he told them many things in parables, saying: “A farmer went out to sow his seed. As he was scattering the seed, some fell along the path, and the birds came and ate it up. Some fell on rocky places, where it did not have much soil. It sprang up quickly, because the soil was shallow. But when the sun came up, the plants were scorched, and they withered because they had no root. Other seed fell among thorns, which grew up and choked the plants. Still other seed fell on good soil, where it produced a crop—a hundred,(F) sixty or thirty times what was sown. Whoever has ears, let them hear.”(G)

10 The disciples came to him and asked, “Why do you speak to the people in parables?”

11 He replied, “Because the knowledge of the secrets of the kingdom of heaven(H) has been given to you,(I) but not to them. 12 Whoever has will be given more, and they will have an abundance. Whoever does not have, even what they have will be taken from them.(J) 13 This is why I speak to them in parables:

“Though seeing, they do not see;
    though hearing, they do not hear or understand.(K)

14 In them is fulfilled(L) the prophecy of Isaiah:

“‘You will be ever hearing but never understanding;
    you will be ever seeing but never perceiving.
15 For this people’s heart has become calloused;
    they hardly hear with their ears,
    and they have closed their eyes.
Otherwise they might see with their eyes,
    hear with their ears,
    understand with their hearts
and turn, and I would heal them.’[a](M)

16 But blessed are your eyes because they see, and your ears because they hear.(N) 17 For truly I tell you, many prophets and righteous people longed to see what you see(O) but did not see it, and to hear what you hear but did not hear it.

18 “Listen then to what the parable of the sower means: 19 When anyone hears the message about the kingdom(P) and does not understand it, the evil one(Q) comes and snatches away what was sown in their heart. This is the seed sown along the path. 20 The seed falling on rocky ground refers to someone who hears the word and at once receives it with joy. 21 But since they have no root, they last only a short time. When trouble or persecution comes because of the word, they quickly fall away.(R) 22 The seed falling among the thorns refers to someone who hears the word, but the worries of this life and the deceitfulness of wealth(S) choke the word, making it unfruitful. 23 But the seed falling on good soil refers to someone who hears the word and understands it. This is the one who produces a crop, yielding a hundred, sixty or thirty times what was sown.”(T)

The Parable of the Weeds

24 Jesus told them another parable: “The kingdom of heaven is like(U) a man who sowed good seed in his field. 25 But while everyone was sleeping, his enemy came and sowed weeds among the wheat, and went away. 26 When the wheat sprouted and formed heads, then the weeds also appeared.

27 “The owner’s servants came to him and said, ‘Sir, didn’t you sow good seed in your field? Where then did the weeds come from?’

28 “‘An enemy did this,’ he replied.

“The servants asked him, ‘Do you want us to go and pull them up?’

29 “‘No,’ he answered, ‘because while you are pulling the weeds, you may uproot the wheat with them. 30 Let both grow together until the harvest. At that time I will tell the harvesters: First collect the weeds and tie them in bundles to be burned; then gather the wheat and bring it into my barn.’”(V)

The Parables of the Mustard Seed and the Yeast(W)(X)

31 He told them another parable: “The kingdom of heaven is like(Y) a mustard seed,(Z) which a man took and planted in his field. 32 Though it is the smallest of all seeds, yet when it grows, it is the largest of garden plants and becomes a tree, so that the birds come and perch in its branches.”(AA)

33 He told them still another parable: “The kingdom of heaven is like(AB) yeast that a woman took and mixed into about sixty pounds[b] of flour(AC) until it worked all through the dough.”(AD)

34 Jesus spoke all these things to the crowd in parables; he did not say anything to them without using a parable.(AE) 35 So was fulfilled(AF) what was spoken through the prophet:

“I will open my mouth in parables,
    I will utter things hidden since the creation of the world.”[c](AG)

The Parable of the Weeds Explained

36 Then he left the crowd and went into the house. His disciples came to him and said, “Explain to us the parable(AH) of the weeds in the field.”

37 He answered, “The one who sowed the good seed is the Son of Man.(AI) 38 The field is the world, and the good seed stands for the people of the kingdom. The weeds are the people of the evil one,(AJ) 39 and the enemy who sows them is the devil. The harvest(AK) is the end of the age,(AL) and the harvesters are angels.(AM)

40 “As the weeds are pulled up and burned in the fire, so it will be at the end of the age. 41 The Son of Man(AN) will send out his angels,(AO) and they will weed out of his kingdom everything that causes sin and all who do evil. 42 They will throw them into the blazing furnace, where there will be weeping and gnashing of teeth.(AP) 43 Then the righteous will shine like the sun(AQ) in the kingdom of their Father. Whoever has ears, let them hear.(AR)

The Parables of the Hidden Treasure and the Pearl

44 “The kingdom of heaven is like(AS) treasure hidden in a field. When a man found it, he hid it again, and then in his joy went and sold all he had and bought that field.(AT)

45 “Again, the kingdom of heaven is like(AU) a merchant looking for fine pearls. 46 When he found one of great value, he went away and sold everything he had and bought it.

The Parable of the Net

47 “Once again, the kingdom of heaven is like(AV) a net that was let down into the lake and caught all kinds(AW) of fish. 48 When it was full, the fishermen pulled it up on the shore. Then they sat down and collected the good fish in baskets, but threw the bad away. 49 This is how it will be at the end of the age. The angels will come and separate the wicked from the righteous(AX) 50 and throw them into the blazing furnace, where there will be weeping and gnashing of teeth.(AY)

51 “Have you understood all these things?” Jesus asked.

“Yes,” they replied.

52 He said to them, “Therefore every teacher of the law who has become a disciple in the kingdom of heaven is like the owner of a house who brings out of his storeroom new treasures as well as old.”

A Prophet Without Honor(AZ)

53 When Jesus had finished these parables,(BA) he moved on from there. 54 Coming to his hometown, he began teaching the people in their synagogue,(BB) and they were amazed.(BC) “Where did this man get this wisdom and these miraculous powers?” they asked. 55 “Isn’t this the carpenter’s son?(BD) Isn’t his mother’s(BE) name Mary, and aren’t his brothers(BF) James, Joseph, Simon and Judas? 56 Aren’t all his sisters with us? Where then did this man get all these things?” 57 And they took offense(BG) at him.

But Jesus said to them, “A prophet is not without honor except in his own town and in his own home.”(BH)

58 And he did not do many miracles there because of their lack of faith.

Footnotes

  1. Matthew 13:15 Isaiah 6:9,10 (see Septuagint)
  2. Matthew 13:33 Or about 27 kilograms
  3. Matthew 13:35 Psalm 78:2