Add parallel Print Page Options

یسوع حاکم وقت کے سامنے

27 دوسرے دن صبح تمام سردار کا ہن اور بڑے لوگوں کے بڑے قائدین ایک ساتھ ملے اور یسوع کو قتل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اس کو زنجیروں میں جکڑ کر گور نر پیلا طس کے پاس لے گئے اور اس کے حوالے کیا۔

یہوداہ کی خود کشی

یہوداہ نے دیکھا کہ انہوں نے یسوع کو مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہوداہ وہی تھا جس نے یسوع کو اسکے دشمنوں کے حوالے کیا تھا۔ جب یہوداہ نے دیکھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس نے اپنے کئے پر نہایت پچتایا۔ اس طرح وہ تیس چاندی کے سکّہ لیکر سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس آیا۔ اور بے گناہ کو قتل کر نے کے لئے تمہارے حوالے کردیا ہے۔ یہودی قائدین نے جواب دیا، “ہمیں اسکی پر واہ نہیں! وہ تو تیرا معاملہ ہے ہمارا نہیں۔”

تب یہوداہ نے اس رقم کو ہیکل میں پھینک دیا اور وہاں سے جاکر خود ہی پھانسی لے لی۔

سردار کاہنوں نے ہیکل میں پڑے چاندی کے سکّے چنے اور کہا کہ وہ رقم جو قتل کے لئے دی گئی ہو اسکو ہیکل کی رقم میں شامل کر نا یہ ہماری مذہبی شریعت کے خلاف ہے۔” اسلئے انہوں نے اس رقم سے“کمہار کا کھیت” نام کی زمین خرید لینے کا فیصلہ کیا۔ یروشلم کے سفر پر آنے و الے اگر کو ئی مرجائ تو ان کو اس کھیت میں دفن کر نا طے پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کھیت کو آج بھی “خون کا کھیت” کہا جاتا ہے۔ اس طرح یرمیاہ نبی کی کہی ہوئی بات پوری ہوئی:

“انہوں نے تیس چاندی کے سکّے لے لئے۔ یہودیوں نے اس کی زندگی کی جو قیمت مقّرر کی تھی وہ یہی تھی 10 خدا وند نے مجھے جیسا حکم دیا تھا۔ اسکے مطابق انہوں نے چاندی کے تیس سکّوں سے کمہار کا کھیت خرید لیا۔”

حاکم پیلاطس کی یسوع کی چھان بین

11 یسوع کو حاکم پیلا طس کے سامنے کھڑا کیا گیا پیلا طس نے اس سے پو چھا، “کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے ؟” یسوع نے جواب دیا ، “ہاں تیرے کہنے کے مطابق وہ میں ہی ہوں۔”

12 سردار کاہنوں اور یہودیوں کے بڑے قائدین نے جب یسوع کی شکایت کی تو وہ خاموش تھا۔

13 اس وجہ سے پیلا طس نے یسوع سے پو چھا، “لوگ تیرے تعلق سے جو شکایت کر رہے ہیں انکو سنتے ہو ئے تو جواب کیوں نہیں دیتا ؟”

14 اس کے باوجود یسوع نے پیلا طس کو کو ئی جواب نہیں دیا۔ اور پیلا طس کو اس بات سے بہت تعجب ہوا۔

یسوع کو رہا کرانے پیلا طس کی کوشش ناکامیاب

15 ہر سال فسح کی تقریب کے موقع پر لوگوں کی خواہش کے مطابق حاکم کا کسی ایک قیدی کو چھوڑنا اس زمانہ کا رواج تھا۔ 16 اس دور میں ایک شخص قید خانہ میں تھا جو نہایت بد نام تصور کیا جاتا تھا۔معروف قیدی جیل میں تھا اسکا نام بربّا تھا۔

17 لوگ پیلاطس کی رہائش گاہ کے پاس جمع تھے۔ پیلاطس نے ان سے پوچھا ، “میں تمہارے لئے کس قیدی کو رہا کروں ؟ بربّا کو یا مسیح کہلا نے والے یسوع کو۔ 18 پیلاطس جانتا تھا کہ لوگ یسوع کو حسد سے پکڑوائے ہیں۔

19 پیلاطس جب فیصلہ کے لئے بیٹھا ہوا تھا تو اسکی بیوی آئی اور ایک پیغام بھیجا۔ “اس آدمی کو کچھ نہ کر وہ مجرم نہیں ہے اسکے تعلق سے پچھلی رات میں خواب میں بہت تکلیف اٹھائی ہوں” یہی وہ پیغام تھا۔

20 لیکن سردار کاہنوں اور بزرگ یہودی قائدین نے بربّا کے چھٹکا رے کے لئے اور یسوع کو قتل کر نے کے لئے لوگوں کو اکسایا کہ وہ اس بات کی گزارش کر لیں۔

21 پیلاطس نے پو چھا، “میں تمہارے لئے کس کو رہا کروں ؟ بربا گویا یسوع کو لوگوں نے بربّا کی تائید میں جواب دیا۔”

22 پیلاطس نے کہا، “یسوع کو جو اپنے آپکو مسیح پکارتا ہے میں کیا کرو ں۔” لوگوں نے جواب دیا “اس کو صلیب پر چڑھا دو۔”

23 پیلا طس نے ان سے پو چھا، “تم اس کو صلیب پر چڑھا نے کیوں کہتے ہو اور اسکا کیا جرم ہے۔” لوگ اونچی آواز میں چیختے ہو ئے کہنے لگے “اسکو صلیب پر چڑھا دو۔”

24 “لوگوں کے خیالات کو بدلنا مجھ سے ممکن نہیں ہے۔ اس بات کو جا نتے ہوئے کہ لوگ فساد پر اتر آئے ہیں اسلئے پیلاطس نے تھوڑا سا پا نی لیا اور تمام لوگوں کے سامنے اپنے ہاتھوں کو دھو تے ہو ئے کہا، “میں اس آدمی کی موت کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ کیوں کہ تم ہی لوگ ہو جو اسکی موت کا ذمہ دار ہو۔”

25 تمام لوگوں نے جواب دیا، “اس کی موت کے ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ اور اسکی موت کے لئے بطور سزا کچھ مقّرر ہو تو اسکو ہم اور ہماری اولاد بھگت لیں گے۔”

26 تب پیلاطس نے بربّا کو رہا کیا اور یسوع کو کو ڑوں سے پٹوایا اور صلیب پر چڑھا نے کے لئے سپاہیوں کے حوالے کردیا۔

یسوع پر کیا جانے والا پیلاطس کے سپاہیوں کا مذاق

27 پیلا طس کے سپا ہی یسوع کو شاہی محل میں لے گئے۔ اور تمام سپا ہیوں نے یسوع کو گھیر لیا۔ 28 اس کے کپڑے اتار دئیے اور اس کو قر مزی چو غہ پہنا یا۔ 29 کانٹوں کی بیل سے بنا ہوا ایک تاج اس کے سر پر رکھا۔ اور اس کے دائیں ہا تھ میں چھڑی دی۔ تب سپا ہی یسوع کے سامنے جھک گئے۔ اور یہ کہتے ہو ئے مذاق کر نے لگے ، “تجھ پر سلام ہوا ے یہودیوں کے بادشاہ۔” 30 سپاہیوں نے یسوع پر تھو کا تب اس کے ہاتھ سے وہ چھڑی چھین لی۔ اور اس کے سرپر مار نے لگے۔ 31 اس طرح مذاق اڑا نے کے بعد اس کا چوغہ نکا ل دئیے اور اس کے کپڑے دوبارہ اسے پہنا دئیے اور صلیب پر چڑھا نے کے لئے لے گئے۔

یسوع کو مصلوب کیا جانا

32 سپا ہی یسوع کے ساتھ شہر سے با ہر جا رہے تھے۔سپا ہیوں نے زبردستی ایک اور شخص کو یسوع کے لئے صلیب اٹھا نے پر زور دیا۔ اس کا نام شمعون تھا جو کرینی سے تھا۔ 33 وہ گلگتا کی جگہ پہنچے۔(گلگتا جس کے “معنی کھوپڑی کی جگہ ”) 34 سپا ہیوں نے گلگتا میں اس کوپینے کے لئے مئے دی۔اور اس مئے میں درد دور کر نے کی دوا ملا ئی گئی تھی۔ یسوع نے مئے کا مزہ چکھا لیکن اسے پینے سے انکار کردیا۔

35 سپاہیوں نے یسوع کو صلیب پر کیل سے ٹھونک دیا۔ پھر اسکی پوشاک حاصل کر نے کے لئے آپس میں قرعہ اندازی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ 36 جبکہ سپاہی یسوع کی پہرہ داری کر تے ہو ئے وہیں پر بیٹھے رہے۔ 37 اس کے علا وہ اس پر جو الزام تھو پا گیا تھا اس الزام کو لکھ کر اس کے سر پر لگایا گیا۔ اور وہ الزام یہی تھا: “یہ یسوع ہے جو یہودیوں کا بادشاہ ہے۔”

38 یسوع کے پہلو میں دو چوروں کو بھی صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ ایک چور کو اسکی داہنی جانب اور دوسرے کو بائیں جانب مصلوب کیا گیا 39 راستے پر گزرنے والے لوگ سر ہلا تے ہوئے اسکا ٹھٹھا کر تے رہے۔ 40 “اور کہتے ،تو نے کہا کہ ہیکل کو منہدم کر سکے گا۔ اور تین دنوں میں دوبارہ تعمیر کریگا۔ بس خود کو بچا! اگر تو حقیقت میں خدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے نیچے اتر کر آجا۔”

41 کاہنوں کے رہنما معلمین شریعت اور معزز یہودی قائدین وہاں پر موجود تھے۔ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح یسوع کا ٹھٹھا کر نے لگے۔ 42 وہ کہتے تھے اس نے دوسرے لوگوں کو بچا یا۔ لیکن خود کو بچا نہیں سکا! لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اگر یہ بادشاہ ہے تو اس کو چاہئے کہ یہ صلیب سے نیچے اتر کر آئے تب ہم اس پر ایمان لائیں گے۔ 43 اسنے خدا پر بھروسہ کیا اسلئے خدا ہی اب اسکو بچائے اگر واقعی خدا کو اسکی ضرورت ہو۔ وہ خود کہتا ہے “میں خدا کا بیٹا ہوں۔” 44 اس طرح یسوع کی داہنی اور بائیں جانب مصلوب کئے گئے چوروں نے بھی اسکے بارے میں بری باتیں کہیں۔

یسوع کی موت

45 اس دن دوپہر بارہ بجے سے تین بجے تک ملک بھر میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ 46 تقریباً تین بجے کے وقت میں یسوع نے زور دار آواز میں چیختے ہو ئے کہا تھا کہ“ ایلی ایلی لما شبقتنی۔” “یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟” [a]

47 وہاں پر کھڑے چند لوگوں نے اسکو سن کر کہا یہ “ایلیاہ کو پکارتا ہے۔”

48 ان میں سے ایک دوڑے ہو ئے گیا اور اسپنچ لا یا اور اس میں سرکہ ڈبوکر بھر دیا اور اسکو ایک چھڑي سے باندھ دیا اور اسی چھڑی سے اسے اسپنچ کو یسوع کو دیا تا کہ وہ اسے پی لے۔ 49 لیکن دوسرے لوگوں نے کہا، “اس کے بارے میں فکر مند نہ ہو ں کیوں کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا اسکی حفاظت کے لئے ایلیاہ آئیگا ؟”

50 تب یسوع پھر زور دار آواز میں چیخ کر جان دیدی۔

51 پھر ہیکل کا پر دہ اوپری حصّہ سے نیچے کی جانب پھٹ کر دو حصوں میں بٹ گیا۔ اور زمین دہل گئی اور پتھر کی چٹانیں ٹوٹ گئیں۔ 52 قبریں کھل گئیں مرے ہو ئے کئی خدا کے لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھے۔ 53 وہ لوگ قبروں سے باہر آئے یسوع پھر دوبارہ جی اٹھا اور وہ لوگ مقدس شہر کو چلے گئے۔ اور کئی لوگوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

54 سپہ سالار اور سپاہی جو یسوع کی نگہبانی کرر ہے تھے۔ زلزلہ اور چشم دید واقعات کو دیکھ کر گھبرا ئے اور کہنے لگے کہ“حقیقت میں وہ خدا کا بیٹا تھا۔”

55 کئی عورتیں جو گلیل سے یسوع کے پیچھے پیچھے اسکی خدمت کر نے کے لئے آئی ہو ئی تھیں دور سے کھڑی دیکھ رہی تھیں۔ 56 مریم مگدلینی یعقوب اور یوسف کی ماں مریم اور یوحنا و یعقوب کی ماں بھی وہاں تھیں۔

یسوع کی قبر

57 اس شام مالدار یوسف یروشلم کو آیا۔ یہ ارمتیاہ شہر کا باشندہ تھا وہ یسوع کا شاگرد تھا۔ 58 یہ پیلا طس کے پاس گیا اور اس نے یسوع کی لاش اسکے حوالے کر نے کی گزارش کی۔ اور پیلا طس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ یسوع کی لاش کو یوسف کے حوالے کریں۔ 59 یوسف لاش کو لیکر اور اسکو نئے سوتی کپڑے میں لپیٹا۔ 60 اور اس نے چٹان کے نیچے زمین میں جو قبر کھدوائی تھی اس میں رکھ دی۔ اور قبر کے منھ پر ایک بڑا پتھّر کو لڑکا کر چلا گیا۔ 61 مریم مگدلینی اور ایک دوسری عورت مریم اس جگہ قبر کے قریب بیٹھی ہو ئی تھیں۔

یسوع کی قبر کی نگہبانی

62 اگلے روز جو تیاری کا دوسرا دن تھا گزر جانے کے بعد تمام سردار کاہن فریسی پیلاطس سے ملے۔ 63 اور کہا کہ وہ دھوکہ باز جب زندہ تھا۔ اور کہا تھا، “تین دن بعد میں دوبارہ جی اٹھونگا یہ بات اب تک ہمیں یاد ہے۔ 64 اس لئے تین دن تک اس قبر کی سختی سے نگرانی کا حکم دو اسلئے کہ اسکے شاگرد اس کی لاش کو چراکر لے جائیں۔ اور لوگوں سے یہ کہیں گے کہ وہ زندہ ہو کر قبر سے اٹھ گیا ہے۔ اور یہ پچھلا دھو کہ پہلے سے بھی برا ہو گا۔”

65 تب پیلاطس نے حکم دیا، “تم چند سپاہیوں کو ساتھ لے جاؤ اور جس طرح چاہتے ہو قبر پر پو ری چوکسی کے ساتھ نگرانی کرو۔” 66 وہ گئے اور قبر کے منھ پتھّر سے مہر کرکے سپاہیوں کی نگرانی میں وہاں پر سخت پہرہ بٹھا دیئے۔

Footnotes

  1. متّی 27:46 اِقتِباس زبور ۱:۲۲

Judas Hangs Himself

27 Early in the morning, all the chief priests and the elders of the people made their plans how to have Jesus executed.(A) So they bound him, led him away and handed him over(B) to Pilate the governor.(C)

When Judas, who had betrayed him,(D) saw that Jesus was condemned, he was seized with remorse and returned the thirty pieces of silver(E) to the chief priests and the elders. “I have sinned,” he said, “for I have betrayed innocent blood.”

“What is that to us?” they replied. “That’s your responsibility.”(F)

So Judas threw the money into the temple(G) and left. Then he went away and hanged himself.(H)

The chief priests picked up the coins and said, “It is against the law to put this into the treasury, since it is blood money.” So they decided to use the money to buy the potter’s field as a burial place for foreigners. That is why it has been called the Field of Blood(I) to this day. Then what was spoken by Jeremiah the prophet was fulfilled:(J) “They took the thirty pieces of silver, the price set on him by the people of Israel, 10 and they used them to buy the potter’s field, as the Lord commanded me.”[a](K)

Jesus Before Pilate(L)

11 Meanwhile Jesus stood before the governor, and the governor asked him, “Are you the king of the Jews?”(M)

“You have said so,” Jesus replied.

12 When he was accused by the chief priests and the elders, he gave no answer.(N) 13 Then Pilate asked him, “Don’t you hear the testimony they are bringing against you?”(O) 14 But Jesus made no reply,(P) not even to a single charge—to the great amazement of the governor.

15 Now it was the governor’s custom at the festival to release a prisoner(Q) chosen by the crowd. 16 At that time they had a well-known prisoner whose name was Jesus[b] Barabbas. 17 So when the crowd had gathered, Pilate asked them, “Which one do you want me to release to you: Jesus Barabbas, or Jesus who is called the Messiah?”(R) 18 For he knew it was out of self-interest that they had handed Jesus over to him.

19 While Pilate was sitting on the judge’s seat,(S) his wife sent him this message: “Don’t have anything to do with that innocent(T) man, for I have suffered a great deal today in a dream(U) because of him.”

20 But the chief priests and the elders persuaded the crowd to ask for Barabbas and to have Jesus executed.(V)

21 “Which of the two do you want me to release to you?” asked the governor.

“Barabbas,” they answered.

22 “What shall I do, then, with Jesus who is called the Messiah?”(W) Pilate asked.

They all answered, “Crucify him!”

23 “Why? What crime has he committed?” asked Pilate.

But they shouted all the louder, “Crucify him!”

24 When Pilate saw that he was getting nowhere, but that instead an uproar(X) was starting, he took water and washed his hands(Y) in front of the crowd. “I am innocent of this man’s blood,”(Z) he said. “It is your responsibility!”(AA)

25 All the people answered, “His blood is on us and on our children!”(AB)

26 Then he released Barabbas to them. But he had Jesus flogged,(AC) and handed him over to be crucified.

The Soldiers Mock Jesus(AD)

27 Then the governor’s soldiers took Jesus into the Praetorium(AE) and gathered the whole company of soldiers around him. 28 They stripped him and put a scarlet robe on him,(AF) 29 and then twisted together a crown of thorns and set it on his head. They put a staff in his right hand. Then they knelt in front of him and mocked him. “Hail, king of the Jews!” they said.(AG) 30 They spit on him, and took the staff and struck him on the head again and again.(AH) 31 After they had mocked him, they took off the robe and put his own clothes on him. Then they led him away to crucify him.(AI)

The Crucifixion of Jesus(AJ)

32 As they were going out,(AK) they met a man from Cyrene,(AL) named Simon, and they forced him to carry the cross.(AM) 33 They came to a place called Golgotha (which means “the place of the skull”).(AN) 34 There they offered Jesus wine to drink, mixed with gall;(AO) but after tasting it, he refused to drink it. 35 When they had crucified him, they divided up his clothes by casting lots.(AP) 36 And sitting down, they kept watch(AQ) over him there. 37 Above his head they placed the written charge against him: this is jesus, the king of the jews.

38 Two rebels were crucified with him,(AR) one on his right and one on his left. 39 Those who passed by hurled insults at him, shaking their heads(AS) 40 and saying, “You who are going to destroy the temple and build it in three days,(AT) save yourself!(AU) Come down from the cross, if you are the Son of God!”(AV) 41 In the same way the chief priests, the teachers of the law and the elders mocked him. 42 “He saved others,” they said, “but he can’t save himself! He’s the king of Israel!(AW) Let him come down now from the cross, and we will believe(AX) in him. 43 He trusts in God. Let God rescue him(AY) now if he wants him, for he said, ‘I am the Son of God.’” 44 In the same way the rebels who were crucified with him also heaped insults on him.

The Death of Jesus(AZ)

45 From noon until three in the afternoon darkness(BA) came over all the land. 46 About three in the afternoon Jesus cried out in a loud voice, “Eli, Eli,[c] lema sabachthani?” (which means “My God, my God, why have you forsaken me?”).[d](BB)

47 When some of those standing there heard this, they said, “He’s calling Elijah.”

48 Immediately one of them ran and got a sponge. He filled it with wine vinegar,(BC) put it on a staff, and offered it to Jesus to drink. 49 The rest said, “Now leave him alone. Let’s see if Elijah comes to save him.”

50 And when Jesus had cried out again in a loud voice, he gave up his spirit.(BD)

51 At that moment the curtain of the temple(BE) was torn in two from top to bottom. The earth shook, the rocks split(BF) 52 and the tombs broke open. The bodies of many holy people who had died were raised to life. 53 They came out of the tombs after Jesus’ resurrection and[e] went into the holy city(BG) and appeared to many people.

54 When the centurion and those with him who were guarding(BH) Jesus saw the earthquake and all that had happened, they were terrified, and exclaimed, “Surely he was the Son of God!”(BI)

55 Many women were there, watching from a distance. They had followed Jesus from Galilee to care for his needs.(BJ) 56 Among them were Mary Magdalene, Mary the mother of James and Joseph,[f] and the mother of Zebedee’s sons.(BK)

The Burial of Jesus(BL)

57 As evening approached, there came a rich man from Arimathea, named Joseph, who had himself become a disciple of Jesus. 58 Going to Pilate, he asked for Jesus’ body, and Pilate ordered that it be given to him. 59 Joseph took the body, wrapped it in a clean linen cloth, 60 and placed it in his own new tomb(BM) that he had cut out of the rock. He rolled a big stone in front of the entrance to the tomb and went away. 61 Mary Magdalene and the other Mary were sitting there opposite the tomb.

The Guard at the Tomb

62 The next day, the one after Preparation Day, the chief priests and the Pharisees went to Pilate. 63 “Sir,” they said, “we remember that while he was still alive that deceiver said, ‘After three days I will rise again.’(BN) 64 So give the order for the tomb to be made secure until the third day. Otherwise, his disciples may come and steal the body(BO) and tell the people that he has been raised from the dead. This last deception will be worse than the first.”

65 “Take a guard,”(BP) Pilate answered. “Go, make the tomb as secure as you know how.” 66 So they went and made the tomb secure by putting a seal(BQ) on the stone(BR) and posting the guard.(BS)

Footnotes

  1. Matthew 27:10 See Zech. 11:12,13; Jer. 19:1-13; 32:6-9.
  2. Matthew 27:16 Many manuscripts do not have Jesus; also in verse 17.
  3. Matthew 27:46 Some manuscripts Eloi, Eloi
  4. Matthew 27:46 Psalm 22:1
  5. Matthew 27:53 Or tombs, and after Jesus’ resurrection they
  6. Matthew 27:56 Greek Joses, a variant of Joseph